احساس و پکار


 

 ہر کوئی اس تاریخی حقیقت سے آشنا ہے کہ قوموں اور ملکوں پر عروج و زوال کے ادوار آتے رہتے ہیں البتہ عظمت و پستی کی یہ دورانیے ملکی و قومی فکر و عمل سے ختم ہوتے ہیں صد افسوس کے مغربی وجود میں آنے سے لے کر تاحال پاکستان بحیثیت ملک و معاشرہ مجموعی طور پر زوال پذیر ہے۔اور مزید بدقسمتی یہ ہے کہ گراوٹ کی رفتار زمانہ کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی ہے بے شک نہ امیدی گناہ ہے لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں بہتری کے امکانات مستقبل قریب میں نظر نہیں آرہے۔ یوں تو ملک کے جسم کا ہر عضو ناقص، ہر پرزہ ناکارہ اور ہر بیچ ڈھیلا ہو چکا ہے گھسنے پٹنے کی اس سلسلے میں بے شمار عوامل کا عمل دخل ہے لیکن سر دست ان اداروں اور عوامل کا کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن کی خرابی و بربادی سے سالم ادارے بھی زد میں آ رہے ہیں اور پاکستان کی تاریخ کو شکست جاری و ساری ہے اور ساتھ ساتھ میں گرد پاکستان کو سنبھالا دینے کی تجاویز بھی غم گساروں کے لئے پیش خدمت ہیں۔پاکستان کی توڑ پھوڑ صاحب اقتدار خلقت کا جرم سب سے بڑا اور گناہ ہے۔سیاسی قیادت نے استعمار دن وطن عزیز کے محکموں کا خوب میں نچوڑا۔بہتر مستقبل اور نئے چیلنجز سے نمٹنے کی خاطر قانون سازی کے بجائے پرمٹو،ٹھیکوں،کمیشن اور کک بیکس کے ذریعے دولت سمیٹی اور مغربی ممالک میں لے جاکر سرمایہ کاری کی۔جب کہ اپنی معیشت کہا بیٹا دیا۔ذاتی مقاصد کے لیے choose and pick کے پالیسی کے تحت اہلکاروں کی تعیناتی سے حکومتی مشینری کو توڑ مروڑ کر کے رکھ دیا ان اہلکاروں ملازموں نے اختیارات کے بجاء ارتقاض اور استعمال کے ذریعے ملکی وسائل کو بے دردی سے لوٹ کر دولت کے انبار نہ صرف حکمرانوں کے قدموں میں ڈھیر کر دیے بلکہ تابعداری کی آڑ میں اپنی تجوریاں بھی خوب بردی۔ٹیو ریاستی ادارے ریاست کے لیے دیمک بن کر چاٹنے لگے۔کسی بھی پائیدار اور حسین معاشرے کے لیے عادل اور عدلیہ کا ہونا ایک لازمی امر ہے لیکن پاکستان ان میں عدالتوں کی حالت ناگفتہ بہہ ہے۔عدالتی طریقہ کار بہت کھٹن،صبر آزما،طویل مہنگا اور رسوا نہیں ہے جو ججز مقدس گائے ہیں ہیں سادہ سے قانون کی تشریح بھی ان کے علاوہ کسی کو نہیں آتی دوسرے اداروں میں ان کی بے جا مداخلت کی کھلی چھوٹ ہے ہر چھوٹے بڑے مقدمے میں وکیل رکھنے کو لازم قرار دیا ہے کہ کھیلوں کی فیسوں پر کوئی پابندی نہیں ہے صرف ایک بیٹی کیلئے وکیل کی کروڑوں کی فیس انصاف کے منہ پر طمانچہ ہے کس منہ سے یہ دوسرے اداروں اور شخصیات کی خدمات کے لیے پیسوں کا تعین کرتے ہیں انصاف ایک قابل فروخت کموڈیڑی بن چکا ہے۔چمک کے فیصلوں کی آواز کا کوئی اثر نہیں لیا جا رہا ہے شعبہ ابلاغیات اپنے مقصد سے بہت دور ہو گیا ہے بے لاگ تبصروں اور مثبت تنقید کرنے والے پر پابندی ہو گئی ہے۔ٹی وی اینکرز روایتی حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں بٹ چکے ہیں ہیں۔ جھوٹ اور جعلسازی ان کے ہاں اتنا فرمایا ہے کہ سچ اور باطل میں فرق مٹ گیا ہے۔نفرتوں کے پروان چڑھنے میں ان کا بڑا کردار ہے کردار کی اور نمازیں میں یہ تمام حدود پار کرگئے ہیں۔دولت ہتھیانے اور سمیٹنے میں انہیں ملکی وقار کا خیال بھی نہیں رہتا۔قارئین و سامعین ذہنی مریض بن گئے ہیں۔زرد صحافت اور لفافہ صحافت وغیرہ کے القاب آباد ان کے لئے آہ و پکار ہے۔اسلام ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ وہ علماء پیغمبروں کے وارث ہوتے ہیں لیکن چار ولد چار علما علماء کی اکثریت اپنا شایان شان طریقے سے نہیں کر پا رہی۔بنیادی عقائد اور عبادات سے نئی نسل کو جوڑے رکھنے میں جہاں وہ ایک عظیم کارخیر کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔وہاں انہوں نے مسلمانوں کو مسلکوں میں الجھا کر امت کی وحدت کو پارہ پارہ کر کے رکھ دیا ہے۔عملی زندگی کے لئے درکار ہر دیے بغیر طوطوں لڑکی بارات تیار کی جارہی ہے۔مدرسوں سے فارغ التحصیل طلباء طفیلیوں کئی بار فوج بن کرپہلے سے عاری معاشرے کے کمزور وسائل پر لشکر کشی کرتے ہیں کفار وجوہات کے فتووں کی بھرمار نے ملک کے باسیوں میں میں نفرت کا زہر بھر دیا ہے۔چندو کے نام پر پیسے بٹورنا ایک کاروبار بن گیا ہے ان کا سب سے بڑا ڈراؤنا گھناؤنا جرم جہاد کے لبادے میں بین الاقوامی سازشوں کا حصہ بننا ہے۔ان تحریکوں کا کارواں پیسہ ہے ان کرتوتوں کی وجہ سے ایک عرصہ سے سکون پاکستان سے روٹھ گیا ہے۔تقریبا تمام حکومتی محکمہ جیسے تعلیم،صحت،مواصلات،واپڈا،گیس اور مال وغیرہ شاپنگ مال کی صورت اختیار کرگئے ہیں اور اس کی معیشت اور معاشرتی حسن کو بری طرح چاٹ رہے ہیں۔

اب اس سڑے ہوئے نظام کو صرف ایک ہی نظام ختم کرسکتا ہے اور وہ ہے اسلامی جمہوریہ صدارتی نظام۔پاکستان میں اسلامی جمہوری صدارتی نظام نافذ کیا جائے۔غیر ملکی سامراج کیسی حکمرانی کو ترک کیا جائے۔سرکاری اہلکاروں کی ٹریننگ میں اسلامی اقدار پر زور دیا جائے۔زارد صحافت کو قابو کیا جائے کرپشن،بد اخلاقی،سمگلنگ،منی لانڈرنگ اور منشیات فروشی کیلئے کڑی سزائیں تجویز کی جائے۔

[احمد خان]